ہم ایک ایسے عھد میں جی رہے ہیں جہاں ہمیں اپنے دین پر عمل کرنے کی مکمّل آزادی حاصل ہے. ہم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیںکہ ہر زندگی کے شعبہ میں ہم اسلام کو لاگو کرتے ہیں مگر صرف نام کی حد تک. ہماری زندگیوں میں قرآن کا تصور بس ایک فال نکلنے والی کتاب کی حد تک ہے یا زیادہ سے زیادہ ہم اسے کیمسٹری کے پریودک ٹیبل جیسے رٹا لگا کر یاد کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ شاید کیونکه ہمیں یہ ١٢-٢٠ سوره یاد ہیں ہم جنّت میں پراپرٹی کے ملک بن بیٹھے ہیں . بہت ہوا تو حج کر کہ بچے کی جیسے معصوم ہو گے اور سوچ لیا ک اب کیونک گناہ کوئی نہی بچا اسلئے جنّت پکّی ہو گیی.رمضان کی وزے ایک ایک کر کے گزرتے جا رہے ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ کیا واقیی ہم نے جنّت کما لی؟ہم جو ہر روزے کا آغاز گرم پراٹھوں انڈے کباب بھاپ اڑاتی چاۓ کے مگ سے کرتے ہیں اور اختتام پکوڑے سموسے فروٹ چاٹ دہی بھللے شربت کھجور بھانت بھانت کی چٹنیاں اور الله بھلا کرے مسالا پروگرامس کا ، مختلف انداز کی مہنگی سے مہنگی دیش افطار کی تیاری کے نام پر گھروں میں تیار کرتے اور پسند نہ انے پر فرج یا ماسی یا دسٹ بن کی نظر کرتے ہیں،ہم نے اس سحر سے لے کر افطار تک کیا کمایا؟بھوک؟پیاس؟کچھ عربک کی ان آیات کا ورد جن کا مطلب تک ہمیں معلوم نہی. مطلب معلوم ہے تو معنی معلوم نہی.یا پھر نماز جس میں ذہن پر آج کیا پکایا جایگا اور درزی کو کس انداز کے کپڑے سینا کے لئے دینا ہے سوار رہتا ہے. ان میں سے غلط کچھ بھی نہی. مگر سہی بھی کچھ نہی ہے. وہ روزہ جس کی غایت یہ تھی کہ ہم اپنے ذہن اور جسم سے غرض کو ختم کر کے اپنے نفس پی قابو پانا سیکھیں، اپنے غریب اور پسماندہ بھائیوں کی کیفیت کا ادرک کریں دنیا میں اپنے ہونے کا جواز کسی نیک کا م کیصورت میں پیدا کریں، اس روزے کو ہم صبح چاے کے کپ مے ڈبو دیتے ہیں اور شام میں شربت کے گلاس میں سے نکل لیتے ہیں. ہم سے کتنے ہیں جنہوں نے اس رمضان میں کسی غریب کے بچے کو لکھنا پڑھنا سکھایا.پاکستان میں بہت سے لوگوں کو قرآن پڑھنا نہی اتا ، ہم سے کتنے ہیں جنہوں نے رمضان میں کسی کو قرآن پڑھنے کی تعلیم دی، یا قرانی آیات کا مطلب بتایا. ہماری اپنی اولاد کو گنتی کی چند سوره یاد ہیں جن کے معنی اور مفہوم سے وہ نا آشنا ہیں. غلط یہ بھی نہی ، مگر یہ صرف نقطہ آغاز ہونا چھائے تھا، اصل سبق کہاں ہے؟کیا ہم نقطہ آغاز پی اٹک کر رہ گے اور یہیں لٹکے رہیں گے؟ کیا ہم کبھی اسلام کے اصل معنی اور اغراض کو نہی پا سکیں گے؟ایک نی روایت یہ چل نکلی ہے کہ رمضان کو اب ایک مہینے کی بجاے ذاتی حیثیت میں مخاطب کیا جاتا ہے. رمضان آییں گے، رمضان جاییں گے رمضان آ چکے ہیں. جبکہ یہ صرف ایک مہینہ ہے، تقدیس کا تصور مختلف ہے اور اسکو ذاتی شکل دینا مختلف ہے.ہمیں ہمیشہ پوجنے کے لئے بت ہی کیوں چاہیے ہیں؟ چاہے وہ عبادت کا بت ہو یا روایت کا بت . ہم عبادت کے عملی نتیجے کو نظر انداز کر کے عبادت کو ہی کعبہ کیوں بنا بیٹھے ہیں؟کیوں کہا گیا کہ روزہ نہ رکھنے کا کفّارا بھوکوں کو کھانا کھلانےکی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے؟یہ دونو باتیں ایک برابر اس لئے ٹھہرا ی گییں کہ مقصد ایک ہے، معاشرتی فلاح. دوسروں کا احساس.مگر اس جانب کسی کی توجوہ نہی ہے.عید کے لئے کپڑے تیار کے جا رہے ہیں، کھوے سےکھوا چھل رہا ہے پکوڑے تلے جا رہے ہیں سموسے بن رہے ہیں مرغی روسٹ ہو رہی ہے، اشیاۓ صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے کیونک یہ ایک بھوکی قوم ہے....... بھوک بچی جا رہی ہے بھوک خریدی جا رہی ہے اور اس
روزے سے ہم بھوک کے سوا کچھ نہی پا رہے ہیں
(بہت سے روزدار ایسے ہیں جنھیں روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا '( حدیث مبارکہ '